کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور
مرزا غالب(1797-1869)اردو زبان کے سب سے بڑے شاعر سمجھے جاتے ہیں۔ ان کی عظمت کا راز صرف ان کی شاعری کے حسن اور بیان کی خوبی ہی میں نہیں ہے۔ ان کاا صل کمال یہ ہے کہ وہ ز ندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جاکر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے بیان کردیتے تھے۔غالب جس پر آشوب دور میں پیدا ہوئے اس میں انہوں نے مسلمانوں کی ایک عظیم سلطنت کو برباد ہوتے ہوئے اور باہر سے آئی ہوئی انگریز قوم کو ملک کے اقتدار پر چھاتے ہوئے دیکھا۔غالباً ً یہی وہ پس منظر ہے جس نے ان کی نظر میں گہرائی اور فکر میں وسعت پیدا کی۔
مرزا غالب کا نام اسد اللہ بیگ خاں تھا۔ باپ کا نام عبداللہ بیگ تھا ۔ آپ دسمبر 1797ء میں آگرہ میں پیدا ہوئے۔ غالب بچپن ہی میں یتیم ہو گئے تھے ان کی پرورش ان کے چچا مرزا نصر اللہ بیگ نے کی لیکن آٹھ سال کی عمر میں ان کے چچا بھی فوت ہو گئے۔ نواب احمد بخش خاں نے مرزا کے خاندان کا انگریزوں سے وظیفہ مقرر کرا دیا۔ 1810ءمیں تیرہ سال کی عمر میں ان کی شادی نواب احمد بخش کے چھوٹے بھائی مرزا الہی بخش خاں معروف کی بیٹی امراءبیگم سے ہو گئی شادی کے بعد انہوں نے اپنے آبائی وطن کو خیر باد کہہ کر دہلی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔
شادی کے بعد مرزا کے اخراجات بڑھ گئے اور مقروض ہو گئے ۔ اس دوران میں انہیں مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ور قرض کا بوجھ مزید بڑھنے لگا۔ آخر مالی پریشانیوں سے مجبور ہو کر غالب نے قلعہ کی ملازمت اختیار کر لی اور 1850ءمیں بہادر شاہ ظفر نے مرزا غالب کو نجم الدولہ دبیر الملک نظام جنگ کا خطاب عطا فرمایا ، اور خاندان تیموری کی تاریخ لکھنے پر مامور کر دیا اور 50روپے ماہور مرزا کا وظیفہ مقرر ہوا۔
غدر کے بعد مرزا کی سرکاری پنشن بھی بند ہو گئی ۔ چنانچہ انقلاب 1857ءکے بعد مرزا نے نواب یوسف علی خاں والی رامپور کو امداد کے لیے لکھا انہوں نے سو روپے ماہوار وظیفہ مقرر کر دیا جو مرزا کو تادم حیات ملتا رہا۔ کثرت شراب نوشی کی بدولت ان کی صحت بالکل تباہ ہو گئی مرنے سے پہلے بے ہوشی طاری رہی اور اسی حالت میں 15 فروری 1869ء کو انتقال فرمایا
مرزا غالب کا نام اسد اللہ بیگ خاں تھا۔ باپ کا نام عبداللہ بیگ تھا ۔ آپ دسمبر 1797ء میں آگرہ میں پیدا ہوئے۔ غالب بچپن ہی میں یتیم ہو گئے تھے ان کی پرورش ان کے چچا مرزا نصر اللہ بیگ نے کی لیکن آٹھ سال کی عمر میں ان کے چچا بھی فوت ہو گئے۔ نواب احمد بخش خاں نے مرزا کے خاندان کا انگریزوں سے وظیفہ مقرر کرا دیا۔ 1810ءمیں تیرہ سال کی عمر میں ان کی شادی نواب احمد بخش کے چھوٹے بھائی مرزا الہی بخش خاں معروف کی بیٹی امراءبیگم سے ہو گئی شادی کے بعد انہوں نے اپنے آبائی وطن کو خیر باد کہہ کر دہلی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔
شادی کے بعد مرزا کے اخراجات بڑھ گئے اور مقروض ہو گئے ۔ اس دوران میں انہیں مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ور قرض کا بوجھ مزید بڑھنے لگا۔ آخر مالی پریشانیوں سے مجبور ہو کر غالب نے قلعہ کی ملازمت اختیار کر لی اور 1850ءمیں بہادر شاہ ظفر نے مرزا غالب کو نجم الدولہ دبیر الملک نظام جنگ کا خطاب عطا فرمایا ، اور خاندان تیموری کی تاریخ لکھنے پر مامور کر دیا اور 50روپے ماہور مرزا کا وظیفہ مقرر ہوا۔
غدر کے بعد مرزا کی سرکاری پنشن بھی بند ہو گئی ۔ چنانچہ انقلاب 1857ءکے بعد مرزا نے نواب یوسف علی خاں والی رامپور کو امداد کے لیے لکھا انہوں نے سو روپے ماہوار وظیفہ مقرر کر دیا جو مرزا کو تادم حیات ملتا رہا۔ کثرت شراب نوشی کی بدولت ان کی صحت بالکل تباہ ہو گئی مرنے سے پہلے بے ہوشی طاری رہی اور اسی حالت میں 15 فروری 1869ء کو انتقال فرمایا
غالب کی شاعری
غالب کے بارے میں عبادت بریلوی لکھتے ہیں، ”غالب زبان اور لہجے کے چابک دست فنکار ہیں۔ اردو روزمرہ اور محاورے کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ اس کی سادگی دل میں اتر جاتی ہے۔“
عبدالرحمن بجنوری لکھتے ہیں کہ، ”ہندوستان کی الہامی کتابیں دو ہیں ”وید مقدس“ اور ”دیوان غالب“ ۔“
اردو شاعری میں مرزا غالب کی حیثیت ایک ررخشاں ستارے کی سی ہے۔ انہوں نے اردو شاعری میں ایک نئی روح پھونک دی ۔ اسے نئے نئے موضوعات بخشے اور اس میں ایک انقلابی لہر دوڑا دی۔ ان کی شاعری میں فلسفیانہ خیالات جا بجا ملتے ہیں۔ غالب ایک فلسفی ذہن کے مالک تھے۔ انہوں نے زندگی کو اپنے طور پر سمجھنے کی بھر پور کوشش کی اور ان کے تخیل کی بلندی اور شوخی فکرکا راز اس میں ہے کہ وہ انسانی زندگی کے نشیب و فراز کوشدت سے محسوس کرتے ہیں۔
غالب انسانی زندگی کے مختلف پہلوئوں کا گہرا شعور رکھتے ہیں ۔ اس کے بنیادی معاملات و مسائل پر غور و فکر کرتے ہیں۔ اس کی ان گنت گتھیوں کو سلجھا دیتے ہیں۔ انسان کو اس کی عظمت کا احساس دلاتے ہیں اس کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونا سکھاتے ہیں ۔ اور نظام کائنات میں اس کونئے آسمانوں پر اڑاتے ہیں۔ غالب کی شاعری اس اعتبار سے بہت بلند ہے اور اس میں شبہ نہیں کہ ان کی شاعر ی کے انہیں عناصر نے اُن کو عظمت سے ہمکنار کیا ہے۔ لیکن جس طرح ان کی شاعری میں ان سب کا اظہار و ابلاغ ہوا ہے۔ وہ بھی اس کو عظیم بنانے میں برابر کے شریک ہیں۔
غالب کی شاعری کا اثرحواس پر شدت سے ہوتا ہے وہ ان میں غیر شعوری طور پرایک ارتعاش کی سی کیفیت پیدا کرتی ہے اور اسی ارتعاش کی وجہ سے اس کے پڑھنے اور سننے والے کے ذہن پر اس قسم کی تصویریں ابھرتی ہیں ۔ ان کے موضوع میں جووسعتیں اور گہرائیاں ہیں اس کا عکس ان کے اظہار و ابلاغ میں بھی نظرآتا ہے۔ ان گنت عناصر کے امتزاج سے اس کی تشکیل ہوتی ہے۔
طنز و مزاح شوخی وظرافت
شوخی و ظرافت غالب کی شخصیت کا خاصہ ہے۔عملی زندگی میں وہ خوش باش انسان تھے۔ اسی لیے حالی انھیں حیوان ِ ظریف کہتے ہیں۔ انتہائی کٹھن حالات میں بھی وہ زندہ دلی کا دامن نہیں چھوڑتے ۔انہیں زمانے نے نجانے کتنے دکھ دیئے لیکن غالب پھر بھی ہنسے جاتے ہیں۔ان کی ظرافت میں محض شوخی ہی کام نہیں کر رہی ،جس طرح غالب کی شخصیت پہلو دار شخصیت ہے اسی طرح غالب کی ظرافت کی بھی متعدد سطحیںہیں۔ ان کی شاعری میں طنز و طرافت کے اعلی نمونے ملتے ہیں۔ غالب کے کچھ طنزیہ اشعار ملاحظہ ہوں:
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
کیا وہ نمرود کی خدائی تھی
بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا
چاہتے ہیں خوب رویوں کو اسد
آپ کی صورت تو دیکھا چاہیے
جانتا ہوں ثواب طاعت وزہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
زندہ دلی اور خوش طبعی
غالب کی شاعر ی میں طنز یہ اشعار کے ساتھ ساتھ شوخی اور خوشدلی کا پہلو بھی بڑا نمایاں ہے۔ چنانچہ ان کے ہاں ایسے اشعار بھی بہت ہیں جنہیں خالص مزاح کا نمونہ کہا جاسکتا ہے۔ اصل میں غالب زندگی کی چھوٹی چھوٹی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کی بھر پور صلاحیت رکھتے تھے۔ اگرچہ وہ زندگی کی تلخیوں سے آگاہہیں لیکن انہیں زندگی سے والہانہ لگائو بھی ہے۔ غالب ایک فلسفی شاعر تھے۔ انہوں نے زندگی کو سمجھنے کی کوشش کی اور پھر اپنے انکشافات کو ہلکے پھلکے انداز میں پیش کر دیا۔ غالب کے کچھ مزاح سے پھرپور اشعار ملاحظہ ہوں
در پہ رہنے کو کہا اور کہہ کے کیسا پھر گیا
جتنے عرصے میں مرا لپٹا ہوا بستر کھلا
کہاں مے خانے کا دروازہ غالب اور کہاں واعظ
پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے
غالب کا تصور عشق
غالب کے ہاں حسن و عشق کے تصورات اگرچہ وہی ہیں جو صدیوں سے اردو اور فارسی شاعری میں اظہار پاتے رہے ہیں ۔ تاہم غالب کی فطری جدت پسندی نے ان کو صرف انہی موضوعات تک محدود نہیں رکھا بلکہ اپنے ذاتی تجربات و محسوسات کی روشنی میں حسن و عشق کے بارے میں انہوں نے اپنی انفرادیت قائم کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔
غالب عشق کی اہمیت کے اس قدر قائل ہیں کہ وہ اس کے بغیر انجمن ہستی کو بے رونق سمجھتے ہیں مثلاً وہ کہتے ہیں کہ
رونق ہستی ہے عشق خانہ ویراں ساز سے
انجمن بے شمع ہے گر برق خرمن میں نہیں
غالب کو اس بات کا بڑا قلق ہے کہ وہ عشق کی بزم آرائی تو عمر بھر کرتے رہے لیکن عشق کی راہ میں حقیقی قربانی ایک بھی نہ دے سکے اور وہ غالباً اس لئے کہ ان کے پاس عشق کے حضور میں پیش کرنے کے لئے کچھ بھی نہ تھا۔فرماتے ہیں کہ
ہوا ہوں عشق کی غارت گری سے شرمندہ
سوائے حسرت تعمیرگھر میں خاک نہیں
غالب عشق کے پرانے افلاطونی تصور کو بھی تسلیم نہیں کرتے ۔ بلکہ اس کے برخلاف ان کا عشق زمینی اوصاف کا حامل ہے۔
خواہش کو احمقوں نے پرستش دیا قرار
کیا پوجتا ہوں اس بت بیداد گر کو میں
غالب کے ہاں عشق کی روایتی عاجزی اور مسکینی کے برخلاف ایک جارحانہ انداز پایا جاتا ہے ۔ ایک خاص مقام اور مخصوص شان ہے۔ وہ سوتے ہوئے محبوب کے پاؤں کا بوسہ محض اس لیے نہیں لیتے کہ وہ بدگماں نہ ہو جائے۔ وہ ناراض محبوب کو مناتے بھی نہیں کہ یوں ان کی سبکسری کا پہلو نکل سکتا ہے۔ وہ بزم میں نہیں بلاتا تو یہ راہ میں نہیں ملتے اور جب وہ عجز و نیاز سے رہ پر نہیں آتے تو اس کے دامن کو حریفانہ کھینچنے کی جرات رندانہ بھی کر لیتے ہیں۔
لے تو لوں سوتے میں اُس کے پاؤں کا بوسہ مگر
ایسی باتوں سے وہ کافر بدگماں ہو جائے گا
عجز و نیاز سے تو وہ آیا نہ راہ پر
دامن کو اس کے آج حریفانہ کھنچئے
ڈاکٹر فرمان فتح پور ی لکھتے ہیں کہ غالب کے اقوال و بیانات کے سلسلے میں خصوصاً محتاط رہنے کی ضرورت ہے اس لئے کہ وہ بنوٹ باز شاعر ہیں قدم قدم پر پنتیر ے بدلتے ہیں اور اپنی خوداری اور انانیت کے باوصف مصلحت کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ۔
عبادت بریلوی لکھتے ہیں کہ
غالب ایک بڑی رنگین ایک بڑی ہی پر کار اور پہلو دار شخصیت رکھتے تھے اور اس رنگینی ، پر کاری اور پہلو داری کی جھلک ان کی ایک ایک بات میں نظرآتی ہے۔
بقول رشید احمد صدیقی، مجھ سے اگر پوچھا جائے کہ ہندوستان کو مغلیہ سلطنت نے کیا دیا ۔ تو میں بے تکلف یہ تین نا م لوں گا غالب ، اردو اور تاج محل۔
بقول ڈاکٹر محمد حسن، دیوان ِ غالب کو ہم نئی نسل کی انجیل قرار دے سکتے ہیں۔
بقول ڈاکٹر عبادت بریلوی، اردو میں پہلی بھرپور اور رنگارنگ شخصیت غالب کی ہے۔ ایک اور جگہ لکھتے ہیں، غالب کی بڑائی اس میں ہے کہ انہوں نے متنوع موضوعات کو غزل کے سانچے میں ڈھالاہے۔
مآخذ : وِکی پیڈیا
غالب کا تصور عشق
غالب کے ہاں حسن و عشق کے تصورات اگرچہ وہی ہیں جو صدیوں سے اردو اور فارسی شاعری میں اظہار پاتے رہے ہیں ۔ تاہم غالب کی فطری جدت پسندی نے ان کو صرف انہی موضوعات تک محدود نہیں رکھا بلکہ اپنے ذاتی تجربات و محسوسات کی روشنی میں حسن و عشق کے بارے میں انہوں نے اپنی انفرادیت قائم کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔
غالب عشق کی اہمیت کے اس قدر قائل ہیں کہ وہ اس کے بغیر انجمن ہستی کو بے رونق سمجھتے ہیں مثلاً وہ کہتے ہیں کہ
رونق ہستی ہے عشق خانہ ویراں ساز سے
انجمن بے شمع ہے گر برق خرمن میں نہیں
غالب کو اس بات کا بڑا قلق ہے کہ وہ عشق کی بزم آرائی تو عمر بھر کرتے رہے لیکن عشق کی راہ میں حقیقی قربانی ایک بھی نہ دے سکے اور وہ غالباً اس لئے کہ ان کے پاس عشق کے حضور میں پیش کرنے کے لئے کچھ بھی نہ تھا۔فرماتے ہیں کہ
ہوا ہوں عشق کی غارت گری سے شرمندہ
سوائے حسرت تعمیرگھر میں خاک نہیں
غالب عشق کے پرانے افلاطونی تصور کو بھی تسلیم نہیں کرتے ۔ بلکہ اس کے برخلاف ان کا عشق زمینی اوصاف کا حامل ہے۔
خواہش کو احمقوں نے پرستش دیا قرار
کیا پوجتا ہوں اس بت بیداد گر کو میں
غالب کے ہاں عشق کی روایتی عاجزی اور مسکینی کے برخلاف ایک جارحانہ انداز پایا جاتا ہے ۔ ایک خاص مقام اور مخصوص شان ہے۔ وہ سوتے ہوئے محبوب کے پاؤں کا بوسہ محض اس لیے نہیں لیتے کہ وہ بدگماں نہ ہو جائے۔ وہ ناراض محبوب کو مناتے بھی نہیں کہ یوں ان کی سبکسری کا پہلو نکل سکتا ہے۔ وہ بزم میں نہیں بلاتا تو یہ راہ میں نہیں ملتے اور جب وہ عجز و نیاز سے رہ پر نہیں آتے تو اس کے دامن کو حریفانہ کھینچنے کی جرات رندانہ بھی کر لیتے ہیں۔
لے تو لوں سوتے میں اُس کے پاؤں کا بوسہ مگر
ایسی باتوں سے وہ کافر بدگماں ہو جائے گا
عجز و نیاز سے تو وہ آیا نہ راہ پر
دامن کو اس کے آج حریفانہ کھنچئے
ڈاکٹر فرمان فتح پور ی لکھتے ہیں کہ غالب کے اقوال و بیانات کے سلسلے میں خصوصاً محتاط رہنے کی ضرورت ہے اس لئے کہ وہ بنوٹ باز شاعر ہیں قدم قدم پر پنتیر ے بدلتے ہیں اور اپنی خوداری اور انانیت کے باوصف مصلحت کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ۔
عبادت بریلوی لکھتے ہیں کہ
غالب ایک بڑی رنگین ایک بڑی ہی پر کار اور پہلو دار شخصیت رکھتے تھے اور اس رنگینی ، پر کاری اور پہلو داری کی جھلک ان کی ایک ایک بات میں نظرآتی ہے۔
بقول رشید احمد صدیقی، مجھ سے اگر پوچھا جائے کہ ہندوستان کو مغلیہ سلطنت نے کیا دیا ۔ تو میں بے تکلف یہ تین نا م لوں گا غالب ، اردو اور تاج محل۔
بقول ڈاکٹر محمد حسن، دیوان ِ غالب کو ہم نئی نسل کی انجیل قرار دے سکتے ہیں۔
بقول ڈاکٹر عبادت بریلوی، اردو میں پہلی بھرپور اور رنگارنگ شخصیت غالب کی ہے۔ ایک اور جگہ لکھتے ہیں، غالب کی بڑائی اس میں ہے کہ انہوں نے متنوع موضوعات کو غزل کے سانچے میں ڈھالاہے۔
مآخذ : وِکی پیڈیا
Post a Comment