تازہ ترین

قُرآن پاک کی تلاوت

مشعلِ راہ

حمد، نعت اور نشید

ایسٹ انڈیا کمپنی کی حقیقت کیا تھی؟


برطانوی  شرقُ الہند کمپنی جسے ایسٹ اِنڈیا کمپنی بھی کہا جاتا ہے ، جزائر شرق الہند میں کاروباری مواقع کی تلاش کے لیے تشکیل دیا گیا ایک تجارتی ادارہ تھا تاہم بعد ازاں اس نے برصغیر میں کاروبار پر نظریں مرکوز کر لیں اور یہاں برطانیہ کے قبضے کی راہ ہموار کی۔ 1857ء کی جنگ آزادی تک ہندوستان میں کمپنی کا راج تھا۔ اس کے بعد ہندوستان براہ راست تاج برطانیہ کے زیر نگیں آ گیا۔
کمپنی کو 1600ء میں ملکہ الزبتھ اول کے عہد میں ہندوستان میں تجارت کا پروانہ ملا۔ 1613ء میں اس نے سورٹھ کے مقام پر پہلی کوٹھی قائم کی اس زمانے میں اس کی تجارت زیادہ تر جاوا اور سماٹرا وغیرہ سے تھی۔ جہاں سے گرم مصالحہ برآمد کرکے یورپ میں بھاری داموں بیچا جاتا تھا۔ 1623ء میں جب ولندیزیوں نے انگریزوں کو جزائر شرق الہند سے نکال باہر کیا تو ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنی تمام تر توجہ ہندوستان پر مرکوز کر دی۔ 1662ء میں بمبئی بھی اس کے حلقہ اثر میں آگیا۔ اور کچھ عرصہ بعد شہر ایک اہم تجارتی بندرگاہ بن گیا۔ 1689ء میں کمپنی نے علاقائی تسخیر بھی شروع کردی جس کے باعث بالآخر ہندوستان میں برطانوی طاقت کو سربلندی حاصل ہوئی۔ 1858ء میں یہ کمپنی ختم کردی گئی اور اس کے تمام اختیارات تاج برطانیہ نے اپنے ہاتھ میں لے لیے۔ تاہم 1874ء تک کچھ اختیارات کمپنی کے ہاتھ میں رہے۔
  سال ۲۰۱۰ ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کو ہندوستانی نژاد برطانوی کاروباری شخصیت سنجیو مہتا ہے خرید لیا۔ 

ایسٹ انڈیا کمپنی اگرچہ ایک تجارتی کمپنی تھی مگر ڈھائی لاکھ سپاہیوں کی ذاتی فوج رکھتی تھی۔ جہاں تجارت سے منافع ممکن نہ ہوتا وہاں فوج اسے ممکن بنا دیتی۔

جیسا کہ ۱۷۵۷ء میں جنگ پلاسی کا واقعہ پیش آیا جس میں انگریزوں کو کامیابی حاصل ہوئی، جس کے بعد بنگال کے جوبیس پرگنوں پر انگریزوں کا کنٹرول ہوگیا۔ مغلیہ سلطنت کے زوال کے نتیجے میں 1765ء میں لارڈ کلائیو مغل بادشاہ شاہ عالم ثانی سے مشرقی صوبوں بنگال، بہار اور اڑیسہ کی دیوانی (ٹیکس وصول کرنے اور عوام کو کنٹرول کرنے کے حقوق) چھبیس لاکھ روپے سالانہ کے عوص حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ دیوانی حاصل کرنے کے بعد، انگریزوں نے رفتہ رفتہ اپنے پاؤں پھیلانے شروع کردیئے اور ان مہاراجوں پر بھی تسلط حاصل کرلیا جو مغلیہ سلطنت کے زوال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، اپنے اپنے صوبوں کی خود مختیاری کا اعلان کرچکے تھے۔ ان میں سے چند مہاراجے ہندو تھے جو دوسری مغربی طاقتوں کی مدد سے مغل شہنشاہ کے خلاف بغاوت کرچکے تھے۔ ان کے خلاف، کامیاب فوجی کاروائی کرتے ہوئے انگریزوں کو ملک کے ایک بڑے حصے پر کنٹرول حاصل ہوگیا۔

شیخ دین محمد جو ایسٹ انڈیا کمپنی کا ملازم تھا اپنے سفر نامے میں لکھتا ہے کہ (سن 1780 کے لگ بھگ) جب ہماری افواج آگے بڑھ رہی تھیں تو ہمیں بہت سارے ہندو زائرین نظر آئے جو سیتا کُنڈ جا رہے تھے۔ 15 دنوں میں ہم مونگیر سے بھاگلپور پہنچ گئے۔ شہر سے باہر ہم نے کیمپ لگا لیا۔ یہ شہر صنعتی اعتبار سے اہم تھا اور اسکی ایک فوج بھی تھی تاکہ اپنی تجارت کو تحفظ دے سکے۔ یہاں ہم چار پانچ دن ٹھہرے۔ ہمیں پتہ چلا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا کیپٹن بروک جو سپاہیوں کی پانچ کمپنیوں کا سربراہ تھا وہ بھی قریب ہی ٹھہرا ہوا ہے۔ اسے کبھی کبھار پہاڑی قبائلیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ پہاڑی لوگ بھاگلپور اور راج محل کے درمیانی پہاڑوں پر رہتے تھے اور وہاں سے گزرنے والوں کو تنگ کرتے تھے۔ کیپٹن بروک نے انکی ایک بڑی تعداد کو پکڑ لیا اور انہیں عبرت کا نمونہ بنا دیا۔ کچھ لوگوں کو سر عام بے تحاشا کوڑے مارے گئے، اور کچھ مردُودوں کو پھانسی پر اس طرح لٹکایا گیا کہ پہاڑوں پر سے واضح نظر آئے تاکہ انکے ساتھیوں کے دلوں میں دہشت بیٹھ جائے۔
 یہاں سے ہم آگے بڑھے اور ہم نے دیکھا کہ ان پہاڑیوں کی لاشیں نمایاں جگہوں پر ہر آدھے میل کے فاصلے پر لٹکی ہوئی ہیں۔ ہم سکلی گڑھی اور تلیا گڑھی سے گزر کر راج محل پہنچے جہاں ہم کچھ دن ٹھہرے۔ ہماری فوج بہت بڑی تھی مگر عقب میں تاجروں پر کچھ دوسرے پہاڑیوں نے حملہ کر دیا۔ ہمارے محافظوں نے ان کا پیچھا کیا، کئی کو مار دیا اور تیس چالیس پہاڑی لوگوں کو پکڑ لیا۔ اگلی صبح جب شہر کے لوگ معمول کے مطابق ہاتھی گھوڑوں اور بیلوں کا چارہ لینے اور جلانے کی لکڑی خریدنے پہاڑیوں کے پاس گئے تو پہاڑیوں نے ان پر حملہ کر دیا۔ سات آٹھ شہری مارے گئے۔ پہاڑی اپنے ساتھ تین ہاتھی کئی اونٹ گھوڑے اور بیل بھی لے گئے۔ ہماری بندوق بردار فوجوں نے جوابی کاروائی میں بہت سے پہاڑیوں کو مار دیا جو تیرکمان اور تلواروں سے لڑ رہے تھے اور دو سو پہاڑیوں کو گرفتار کر لیا۔ انکی تلوار کا وزن 15 پاونڈ ہوتا تھا جو اب ہماری فتح کی ٹرافی بن چکی تھیں۔

کرنل گرانٹ کے حکم پر ان پہاڑیوں پر شدید تشدد کیا گیا۔ کچھ کے ناک کان کاٹ دیئے گئے۔ کچھ کو پھانسی دے دی گئی۔ اسکے بعد ہم نے کلکتہ کی طرف اپنا مارچ جاری رکھا۔

جون 1757ء میں پلاسی کی جنگ میں نواب سراج الدولہ کو شکست دینے کے بعد کمپنی کے اعلیٰ ترین افسران نے بنگال میں یکے بعد دیگرے کئی نواب مقرر کیئے اور ہر ایک سے رشوت لے کر 26 لاکھ پاونڈ بٹور لیئے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوجیں اکثر مقامی حکمرانوں کو اجرت کے عوض فوجی خدمات فراہم کرتی تھیں۔ لیکن ان فوجی اخراجات سے مقامی حکمران جلد ہی کنگال ہو جاتے تھے اور اپنی حکمرانی کھو بیٹھتے تھے۔ اس طرح ایسٹ انڈیا کمپنی کی سلطنت وسیع ہوتی چلی گئی۔
بنگال کے قحط نے کمپنی کے افسران کو امیر بننے کا بھر پور موقع فراہم کیا۔ چاول جو ایک روپے میں 120 سیر ملتا تھا اب ایک روپے میں صرف تین سیر ملنے لگا۔ ایک جونیئر افسر نے اس طرح 60,000 پاونڈ منافع کمایا۔ 

 Cornelius Wallard  
کے مطابق ہندوستان میں پچھلے دو ہزار سالوں میں 17 دفعہ قحط پڑا تھا۔ مگر ایسٹ انڈیا کمپنی کے 120 سالہ دور میں 34 دفعہ قحط پڑا۔ مغلوں کے دور حکومت میں قحط کے زمانے میں لگان (ٹیکس) کم کر دیا جاتا تھا مگر ایسٹ انڈیا کمپنی نے قحط کے زمانے میں لگان بڑھا دیا۔
Warren Hastings
کے مطابق لگ بھگ ایک کروڑ افراد بھوک سے مر گئے جو کل آبادی کا ایک تہائی تھے۔ لوگ روٹی کی خاطر اپنے بچے بیچنے لگے تھے۔

 برطانیہ کے ہاؤس آف کامنز نے 1813 میں تھامس منروئے  جسے 1820 میں مدراس کا گورنر بنایا گیا   سے جاننا چاہا کہ آخر صنعتی انقلاب کے بعد انگلینڈ کے بنے ہوئے کپڑے ہندوستان میں کیوں نہیں بک رہے تو اس نے جواب دیا کہ ہندوستانی کپڑے کہیں زیادہ بہتر کوالٹی کے ہوتے ہیں۔ اس نے مزید کہا کہ میں ایک ہندوستانی شال سات سال سے استعمال کر رہا ہوں مگر وہ آج بھی نئی جیسی ہے۔ اگر کوئی مجھے یورپ کی بنی شال تحفے میں بھی دے تو میں اسے استعمال نہیں کروں گا۔

انگلینڈ میں بنے کپڑے کو ہندوستان میں مقبول بنانے کے لیئے ہندوستان کی کپڑے کی صدیوں پرانی صنعت کو بڑی بے رحمی سے تباہ کیا گیا۔ اگر کوئی جولاہا کپڑے بیچتا ہوا نظر آ جاتا تو اس کے ہاتھ کا انگوٹھا کاٹ دیا جاتا تھا تاکہ وہ زندگی بھر کپڑا نہ بن سکے۔ کسانوں کی آمدنی پر ٹیکس 66 فیصد کر دیا گیا جو مغل دور میں 40 فیصد تھا۔ روز مرہ استعمال کی عام اشیاء پر بھی ٹیکس عائید کیے گئے جن میں نمک بھی شامل تھا۔ اس سے نمک کی کھپت آدھی ہو گئی۔ نمک کم استعمال کرنے کی وجہ سے غریب لوگوں کی صحت سخت متاثر ہوئی اور ہیضے اور لُو لگنے کی وجہ سے ہونے والی اموات میں بڑا اضافہ ہوا۔
  ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک ڈائریکٹر ہنری جارج ٹکر نے 1823 میں لکھا کہ اس طرح ہندوستان کو ایک صنعتی ملک کی حیثیت سے گرا کر ایک زراعتی ملک بنا دیا گیا ہے تاکہ انگلستان کا مال ہندوستان میں بیچا جا سکے

۱۸۱۴ء سے ۱۸۳۵ء  تک انگلینڈ کے بنے کپڑے کی ہندوستان میں فروخت میں 51 گنا اضافہ ہوا جبکہ ہندوستان سے انگلینڈ آنے والی درآمدات صرف چوتھائی رہ گئیں۔ اس دوران ڈھاکہ جو کپڑا سازی کا بڑا مرکز تھا اس کی آبادی دیڑھ لاکھ سے گر کر صرف بیس ہزار رہ گئی۔ گورنر جنرل ویلیم بنٹنک نے 1834 میں اپنی رپورٹ میں لکھا کہ معاشیات کی تاریخ میں ایسی بدترین صورتحال کی مثال نہیں ملتی۔ ہندوستانی جولاہوں کی ہڈیوں سے ہندوستان کی زمین سفید ہو گئی ہے۔ 
۱۷۷۱ء میں کمپنی کے پاس صرف 187 یورپی سول افسران تھے جو بنگال میں تعینات تھے اور تین کروڑ لوگوں پر حکومت کرتے تھے۔ فوج میں بھی عموماً آدھے سے زیادہ لوگ ہندوستانی ہوا کرتے تھے۔

کیا موجودہ دور میں بھی ایسٹ انڈیا کمپنی دنیا میں اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے سرگرم ہے؟ اِس بارے آپ کا کیا خیال ہے  


Post a Comment

 
Copyright © 2015 Urdu Award
Powered by Z.A.Anees