کبھی یا د آئیں تو پوچھنا ذرا اپنی خلوتِ شام سے
کسے عشق تھا تیری ذات سے، کسے پیارتھا تیرے نام سے
ذرا یاد کر کہ وہ کون تھا، جو کبھی تجھے بھی عزیز تھا
وہ جو جی اٹھا تیرے نام سے، وہ جو مرمِٹا تیرے نام سے
ہمیں بے رُخی کا نہیں گِلہ، کہ یہی وفاؤں کا ہے صِلہ
مگر ایسا جرم تھا کون سا، گئے ہم دعا و سلام سے
نہ کبھی وصل کی چاہ کی، نہ کبھی فراق میں آہ کی
کہ میرا طریقہ بندگی ہے، جدا طریقہ عام سے
بہت عمدہ
ReplyDelete