ہارڈڈسک بنانے والی معروف کمپنی سی گیٹ کے نائب صدر مارک وِٹبے (Mark Whitby) نے ٹیک ریڈار کو دیے اپنے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا ہے کہ اگلے دو سال میں دنیا کو ڈیٹا اسٹوریج کے قحط کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا،’’ہم ایک ایسی دنیا میں داخل ہونے جارہے ہیں جہاں ہر ڈیوائس ایک دوسرے سے جڑی ہوگی اور ان سے پیدا ہونے والے ضخیم ڈیٹا سے ہمارے مختلف مسائل حل ہونے کی امید لگائی جارہی ہے۔ لیکن 2016ء تک دنیا بھر میں موجود ڈیوائسز اور بڑے بڑے ڈیٹا سینٹرز میں لگی ہارڈڈرائیوز کی ڈیٹا محفوظ کرنے کل گنجائش سے زیادہ ڈیٹا پیدا ہونے لگے گا۔ سال 2013ء میں 3.5 زیٹا بائٹس (35 کے بعد 20 صفر) کا ڈیجیٹل ڈیٹا پیدا ہوا۔
2020ء میں یہ مقدار کم از کم 44 (چوالیس) زیٹا بائٹس فی سال تک پہنچ جائے گی۔‘‘ لفظ زیٹا بائٹ (zettabyte ) بہت سے قارئین کے لیے نیا ہوسکتا ہے لیکن اگلے چند سالوں کے دوران اس اصطلاح سے واسطہ پڑنا شروع ہوجائے گا۔
ایک زیٹا بائٹ ڈیٹا محفوظ کرنے کے لیے کتنی زیادہ گنجائش ہے، اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 32 گیگا بائٹس کی اسٹوریج رکھنے والے تقریباً 34 ارب، 35 کروڑ، 97لاکھ اور 34ہزار ایپل آئی فونز کی مجموعی گنجائش ایک زیٹا بائٹ ہوگی۔
مارک وِٹبے نے مزید کہا کہ 2020ء میں دنیا کے پاس ڈیٹا محفوظ کرنے کی جو گنجائش ہوگی، پیدا ہونے والا ڈیجیٹل ڈیٹا اس سے چھے زیٹا بائٹس زیادہ ہوگا۔ یعنی طلب اور رسد کا یہ فرق 2013ء میں پیدا ہونے والے کْل ڈیٹا سے بھی د گنا زیادہ ہوجائے گا۔ اس سوال کے جواب میں کہ اگر دنیا میں اسٹوریج کی قحط پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔
ہارڈڈرائیو بنانے والی کمپنیاں ان کی پیداوار میں کیوں اضافہ نہیں کرتیں، مارک وِٹبے نے کہا ’’بدقسمتی سے طلب اور رسد کے اس فرق کا مسئلہ حل کرنا آسان کام نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈیٹا کو محفوظ کرنے کے لیے اسٹوریج ڈیوائسز بنانا ڈیٹا پیدا کرنے سے کہیں زیادہ مشکل کام ہے۔ جس طلب کا سامنا ہمیں مستقبل میں ہونے جارہا ہے، اسے پورا کرنے کے لیے ہمیں ایسی فیکٹریاں درکار ہیں جنہیں بنانے میں کھربوں ڈالر لگ جائیں گے۔ اس لیے یہ حقیقت پر مبنی حل نہیں ہے۔
طلب اور رسد کے فرق کو ختم کرنے میں ناکامی کی ایک وجہ وہ ٹیکنالوجی بھی ہے جو ہم اس وقت استعمال کررہے ہیں۔ انتہائی چھوٹے رقبے پر بڑی مقدار میں ڈیٹا محفوظ کرنے کی ہماری صلاحیت بھی اپنی حد کو پہنچ رہی ہے اور اب ہمیں نئی ٹیکنالوجی درکار ہوگی۔‘‘
Post a Comment