تازہ ترین

قُرآن پاک کی تلاوت

مشعلِ راہ

حمد، نعت اور نشید

Sports Channels

Entertainment Channels

Urdu Literature

Featured

اے وطن پیارے وطن پاک وطن


اے وطن پیارے وطن پاک وطن 
تجھ سے میری ہے تمنّاؤں کی دنیا پُرنوُر
عزم میر ا قوی میرے اِرادے ہیں غیّور 


اُردو زبان کی تاریخ اور ارتقا



اُردو برصغیر کی زبانِ رابطۂ عامہ ہے۔ اس کا اُبھار 11 ویں صدی عیسوی کے لگ بھگ شروع ہو چکا تھا۔ اُردو ، ہند-یورپی لسانی خاندان کے ہند-ایرانی شاخ کی ایک ہند-آریائی زبان ہے. اِس کا اِرتقاء جنوبی ایشیاء میں سلطنتِ دہلی کے عہد میں ہوا اور مغلیہ سلطنت کے دوران فارسی، عربی اور ترکی کے اثر سے اس کی ترقّی ہوئی۔
اُردو (بولنے والوں کی تعداد کے لحاظ سے) دُنیا کی تمام زبانوں میں بیسویں نمبر پر ہے. یہ پاکستان کی قومی زبان جبکہ بھارت کی 23 سرکاری زبانوں میں سے ایک ہے.
اُردو کا بعض اوقات ہندی کے ساتھ موازنہ کیا جاتا ہے. اُردو اور ہندی میں بُنیادی فرق یہ ہے کہ اُردو نستعلیق رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اور عربی و فارسی الفاظ استعمال کرتی ہے. جبکہ ہندی دیوناگری رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اور سنسکرت الفاظ زیادہ استعمال کرتی ہے
کچھ ماہرینِ لسانیات اُردو اور ہندی کو ایک ہی زبان کی دو معیاری صورتیں گردانتے ہیں. تاہم، دوسرے اِن کو معاش اللسانی تفرّقات کی بنیاد پر الگ سمجھتے ہیں۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہندی ، اُردو سے نکلی۔اسی طرح اگر ار
 دو اور ھندی زبان کو ایک سمجھا جاۓ تو یہ دنیا کی چوتھی بڑی زبان ہے

تاریخ 
اردو کو سب سے پہلے مغل شہنشاہ اکبر کے زمانے میں متعارف کروایا گیا۔واقعہ کچھ یوں ہے کہ برِصغیرمیں 635 ریاستیں تھیں جن پر اکبر نے قبضہ کر لیا۔اتنے بڑے رقبے کی حفاظت کے لیے اسے مضبوط فوج کی ضرورت تھی۔اس لیے اس نے فوج میں نئے سپاہی داخل کرنے کا حکم دیا۔ان 635 ریاستوں سے کئی نوجوان امڈ آئے۔سب کے سب الگ الگ زبان کے بولنے والے تھے جس سے فوجی انتظامیہ کو مشکلات کا سامنا تھا۔اکبر نے نیا حکم جاری کیا کہ سب میں ایک نئی زبان متعارف کروائی جائے۔تب سب فوجیوں کو اردو کی تعلیم دی گئی جن سے آگے اردو برِصغیرمیں پھیلتی چلی گئی۔
اردو ترکی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے لشکر۔دراصل مغلوں کے دور میں کئی علاقوں کی فوجی آپس میں اپنی زبانوں میں گفتگو کیا کرتے تھے جن میں ترکی،عربی اور فارسی زبانیں شامل تھیں۔چونکہ یہ زبانوں کا مجموعہ ہے اس لیے اسے لشکری زبان بھی کہا جاتا ہے۔دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ کر زبان کے الفاظ اپنے اندر سمو لینے کی بھی صلاحیت رکھتی ہے۔

بولنے والے اور جُغرافیائی پھیلاؤ 
معیاری اُردو (کھڑی بولی) کے اصل بولنے والے افراد کی تعداد 60 سے 80 ملین ہے۔ ایس.آئی.ایل نژادیہ کے 1999ء کی شماریات کے مطابق اُردو اور ہندی دُنیا میں پانچویں سب سے زیادہ بولی جانی والی زبان ہے۔ لینگویج ٹوڈے میں جارج ویبر کے مقالے: 'دُنیا کی دس بڑی زبانیں' میں چینی زبانوں، انگریزی اور ہسپانوی زبان کے بعد اُردو اور ہندی دُنیا میں سب سے زیادہ بولے جانی والی چوتھی زبان ہے۔ اِسے دُنیا کی کُل آبادی کا 4.7 فیصد افراد بولتے ہیں۔
اُردو کی ہندی کے ساتھ یکسانیت کی وجہ سے، دونوں زبانوں کے بولنے والے ایک دوسرے کو عموماً سمجھ سکتے ہیں۔ درحقیقت، ماہرینِ لسانیات اِن دونوں زبانوں کو ایک ہی زبان کے حصّے سمجھتے ہیں۔ تاہم، یہ معاشی و سیاسی لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں. لوگ جو اپنے آپ کو اُردو کو اپنی مادری زبان سمجھتے ہیں وہ ہندی کو اپنی مادری زبان تسلیم نہیں کرتے، اور اِسی طرح اِس کے برعکس۔

پاکستان میں اردو 
اُردو کو پاکستان کے تمام صوبوں میں سرکاری زبان کی حیثیت حاصل ہے۔ یہ مدرسوں میں اعلٰی ثانوی جماعتوں تک لازمی مضمون کی طور پر پڑھائی جاتی ہے۔ اِس نے کروڑوں اُردو بولنے والے پیدا کردیئے ہیں جن کی زبان پنجابی، پشتو، سندھی، بلوچی، کشمیری، براہوی، چترالی وغیرہ میں سے کوئی ایک ہوتی ہے. اُردو پاکستان کی مُشترکہ زبان ہے اور یہ علاقائی زبانوں سے کئی الفاظ ضم کررہی ہے۔ اُردو کا یہ لہجہ اب پاکستانی اُردو کہلاتی ہے. یہ اَمر زبان کے بارے میں رائے تبدیل کررہی ہے جیسے اُردو بولنے والا وہ ہے جو اُردو بولتا ہے گو کہ اُس کی مادری زبان کوئی اَور زبان ہی کیوں نہ ہو. علاقائی زبانیں بھی اُردو کے الفاظ سے اثر پارہی ہیں. پاکستان میں کروڑوں افراد ایسے ہیں جن کی مادری زبان کوئی اَور ہے لیکن وہ اُردو کو بولتے اور سمجھ سکتے ہیں۔ پانچ ملین افغان مہاجرین، جنھوں نے پاکستان میں پچیس برس گزارے، میں سے زیادہ تر اُردو روانی سے بول سکتے ہیں۔ وہ تمام اُردو بولنے والے کہلائیں گے۔ پاکستان میں اُردو اخباروں کی ایک بڑی تعداد چھپتی ہے جن میں روزنامۂ جنگ، نوائے وقت اور ملّت شامل ہیں۔

بھارت میں اردو   
بھارت میں، اُردو اُن جگہوں میں بولی اور استعمال کی جاتی ہے جہاں مسلمان اقلیتی آباد ہیں یا وہ شہر جو ماضی میں مسلمان حاکمین کے مرکز رہے ہیں۔ اِن میں اُتر پردیش کے حصے (خصوصاً لکھنؤ)، دہلی، بھوپال، حیدرآباد، بنگلور، کولکتہ، میسور، پٹنہ، اجمیر اور احمد آباد شامل ہیں. کچھ بھارتی مدرسے اُردو کو پہلی زبان کے طور پر پڑھاتے ہیں، اُن کا اپنا خاکۂ نصاب اور طریقۂ امتحانات ہیں۔ بھارتی دینی مدرسے عربی اور اُردو میں تعلیم دیتے ہیں۔ بھارت میں اُردو اخباروں کی تعداد 35 سے زیادہ ہے۔
جنوبی ایشیاء سے باہر اُردو زبان خلیجِ فارس اور سعودی عرب میں جنوبی ایشیائی مزدور مہاجر بولتے ہیں۔ یہ زبان برطانیہ، امریکہ، کینیڈا، جرمنی، ناروے اور آسٹریلیا میں مقیم جنوبی ایشیائی مہاجرین بولتے ہیں۔

سرکاری حیثیت   
اُردو پاکستان کی قومی زبان ہے اور یہ پورے ملک میں بولی اور سمجھی جاتی ہے. یہ تعلیم، اَدب، دفتر، عدالت، وسیط اور دینی اِداروں میں مستعمل ہے. یہ ملک کی سماجی و ثقافتی میراث کا خزانہ ہے.
اُردو بھارت کی سرکاری زبانوں میں سے ایک ہے. یہ بھارتی ریاستوں آندھرا پردیش، بہار، جموں و کشمیر، اُتر پردیش، جھارکھنڈ، دارالخلافہ دہلی کی سرکاری زبان ہے۔ اس کے علاوہ مہاراشٹر، کرناٹک، پنجاب اور راجستھان وغیرہ ریاستوں میں بڑی تعداد میں بولی جاتی ہے۔ بھارتی ریاست مغربی بنگال نے اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دے رکھا ہے۔

اردو زبان کی ابتداء کے متعلق نظریات  
زبان اردو کی ابتداء و آغاز کے بارے میں کئی مختلف و متضاد نظریات ملتے ہیں یہ آپس میں اس حد تک متضاد ہیں کہ ایک انسان چکرا کر رہ جاتا ہے۔ ان مشہور نظریات میں ایک بات مشترک ہے کہ ان میں اردو کی ابتداء کی بنیاد برصغیر پاک و ہند میں مسلمان فاتحین کی آمد پر رکھی گئی ہے۔ اور بنیادی استدلال یہ ہے کہ اردو زبان کا آغاز مسلمان فاتحین کی ہند میں آمد اور مقامی لوگوں سے میل جول اور مقامی زبان پر اثرات و تاثر سے ہوا۔ اور ایک نئی زبان معرض وجود میں آئی جو بعد میں اردو کہلائی۔ کچھ ماہرین لسانیات نے اردو کی ابتدا ءکا سراغ قدیم آریائو ں کے زمانے میں لگانے کی کوشش کی ہے۔ بہر طور اردو زبان کی ابتداء کے بارے میں کوئی حتمی بات کہنا ذرا مشکل ہے۔ اردو زبان کے محققین اگرچہ اس بات پر متفق ہیں کہ اردو کی ابتداء مسلمانوں کی آمد کے بعد ہوئی لیکن مقام اور نوعیت کے تعین اور نتائج کے استخراج میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔

اردو کی ابتداء کے بارے پروفیسر محمود شیرانی کا یہ استدال بڑا وزن رکھتا ہے کہ غزنوی دور میں جو ایک سو ستر سال تک حاوی ہے ایسی بین الاقوامی زبان ظہور پذیر ہو سکتی ہے۔ اردو چونکہ پنجاب میں بنی اس لیے ضروری ہے کہ وہ یا تو موجودہ پنجابی کے مماثل ہو یا اس کے قریبی رشتہ دار ہو۔ بہرحال قطب الدین ایبک کے فوجی اور دیگر متوسلین پنجاب سے کوئی ایسی زبان ہمراہ لے کر روانہ ہوئے جس میں خود مسلمان قومیں ایک دوسرے سے تکلم کر سکیں اور ساتھ ہی ہندو اقوام بھی اس کو سمجھ سکیں اور جس کو قیام پنجاب کے زمانے میں وہ بولتے رہے ہیں۔ یوں محققین کی ان آراء کے بعد یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ قدیم اردو کا آغاز جدید ہند آریائی زبانوں کے طلوع کے ساتھ 1000ء کے لگ بھک اس زمانے میں ہو گیا جب مسلم فاتحین مغربی ہند (موجودہ مغربی پاکستان) کے علاقوں میں آباد ہوئے اور یہاں اسلامی اثرات بڑی سرعت کے ساتھ پھیلنے لگے۔

   

ڈاکٹر علامہ محمد اقبال اور بیداری امت


نو نومبر ۱۸۷۷ء کو وہ شخصیت عالم فانی میں وجود پذیر ہوئی جس نے اپنی لافانی شاعری اور نثر سے امت مسلمہ کے لیے کامیابی اور فلاح کے لیے نئی جہتیں متعین کیں۔ انھوں نے اپنی شاعری میں قرآن و حدیث سے مستعار دینی، اخلاقی، سیاسی، معاشی، اور اقتصادی اصول و ضوابط سے اہل اسلام کے لیے ترقی ومنازل کی نئی راہیں فراہم کیں، اسی وجہ سے وہ ’’حکیم الامت‘‘ اور  ’’شاعر مشرق‘‘ کے خطابات سے جانے اور مانے گئے۔ ۱۹۳۰ء میں الٰہ آباد میں مسلم لیگ کی صدارت میں ’’نظریۂ پاکستان‘‘ کو پیش کرنے کے سبب ’’مفکر پاکستان‘‘، ’’مصور پاکستان‘‘ اور ’’پاکستان کے نظریاتی باپ‘‘ کے خطابات سے معروف ہوئے۔

علامہ اقبال رحمہ اللہ کی جہد مسلسل اور تفکر نے امت مسلمہ، بالخصوص مسلمانان بر صغیر پاک و ہند کو ایک نئی نظریاتی حیات سے نوازا۔ انھوں نے اپنی ہمہ گیر شاعری میں نصح و خیرخواہی، تشبیہات، استعارات، تمثیلات، واقعہ نگاری، خاکہ نگاری وغیرہ جو اصناف استعمال کی ہیں، ان سے امت مسلمہ کے لیے ان کے جذبات و احساسات کا بہ خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان کی شاعری میں امت کی انفرادی اور من حیث الامت اجتماعی ذمہ داری کو بڑے دردمندانہ احساس میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔

وہ امت مسلمہ کو اپنے دینی، سیاسی، انفرادی اور اجتماعی معاملات میں اپنے اصل منبع اور مرجع کی طرف رجوع کرنے اور ان سے تائید و نصرت طلب کرنے کے لیے نصیحت کرتے ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کے ایک ارشاد کی منظوم ترجمانی کرتے ہوئے فرماتے ہیں 
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے؟ رہروِ منزل ہی نہیں
 بلا شبہ، اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت شامل حال ہوتی ہے، مگر اس کی یہ سنت انھی لوگوں کے لیے کار فرما ہوتی ہے جو اس کی راہ پر چلتے اور اس کے احکام پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنے آپ کو اس کے قابل بناتے ہیں۔ امت مسلمہ کی بیداری کے لیے اصل منبع اور ماخذ قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ ہے، علامہ اقبال علیہ الرحمۃ نے بھی اس کے لیے اصل سرچشمہ اور مرجع قرآن مجید ہی کو قرار دیا ہے۔ انھوں اپنے اس موقف کو اپنے درج ذیل شعر میں اس طرح بیان فرمایا ہے 
قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلمان
اللہ کرے تجھ کو عطا جدت کردار 
اس کے ساتھ ساتھ علامہ اقبال رحمہ اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو بیداری کا درس دیتے ہوئے ان کی تقلیدی روش پر سرزنش بھی کرتے ہیں
مسلماں ہے توحید میں گرمجوش
!مگر دل ابھی تک ہے زنّار پوش

 تمدن، تصوف، شریعت، کلام
!بتانِ عجم کے پجاری تمام

حقیقت خرافات میں کھو گئی
!یہ امت روایات میں کھو گئی
 علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری اور نثر کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس میں اتحاد، اسلام اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت، استعماری قوتوں کے خلاف صداے احتجاج، مغربی تہذیب سے احتراز، امت مسلمہ کی بیداری اور نشاۃ ثانیہ کے پہلو بدرجۂ اتم پائے جاتے ہیں۔ جیساکہ وہ اپنے ایک معروف شعر میں فرماتے ہیں 
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاک کاشغر 

امت مسلمہ کی ایک عالم گیر حیثیت کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں

عقل ہے تیری سپر عشق ہے شمشیر تری
مرے درویش! خلافت ہے جہاں گیر تری 

ما سوا اللہ کے لیے آگ ہے تکبیر تری
  تو مسلمان ہو تو تقدیر سے تدبیر تری

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں 
 یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

امت مسلمہ کو درس بیداری دیتے ہوئے اقبال رحمہ اللہ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں 
 آج بھی ہو جو براہیم ؑ کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے انداز گلستان پیدا
امت کی نشاۃ ثانیہ کے لیے ایک ضابطہ متعین کرتے ہوئے رقم طراز ہیں
شب گریزاں ہو گی آخر جلوۂ خورشید سے
یہ چمن معمور ہو گا نغمۂ توحید سے
علامہ اقبال رحمہ اللہ کی شاعری کی ایک اور خاص بات ان کا ’’خودی‘‘ کا نظریہ ہے۔ اگر تدبر کی نگاہ سے دیکھا جائے تو اس نظریۂ خودی میں بھی بنیادی طور پر امت مسلمہ کی بیداری ہی کا فلسفہ پنہاں ہے۔ ان کی شاعری میں یہ بہ کثرت ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ امت کی خوش حالی اور ترقی کا راز بتاتے ہوئے وہ فرماتے ہیں
!خودی کے ساز میں ہے عمر جاوداں کا سراغ
!خودی کے سوز سے روشن ہیں امتوں کے چراغ
ایک دوسرے مقام پر خودی کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے کہتے ہیں
خودی کو نہ دے سیم و زر کے عوض
نہیں شعلہ دیتے شرر کے عوض 

امت مسلمہ کی بیداری کے لیے زیادہ تر تو اقبال رحمہ اللہ نے شاعری کو اپنا خاص ذریعہ بنایا ہے، مگر ان کی نثر کا بھی مطالعہ کیا جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ انھوں نے اہل اسلام کی بیداری کے لیے ان کے مذہبی، اخلاقی، سیاسی اور اقتصادی افکار کی اصلاح و تنقیح کے لیے بھی خاص توجہ دی ہے۔ 
اِس حوالے سے ان کی کتاب 
Reconstruction of Religious Thought in Islam
کا مطالعہ بہت ضروری ہے  
اس کتاب کا اردو ترجمہ بھی  تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ  کے نام سے دستیاب ہے۔  امت مسلمہ کے اتحاد کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں
"For the present every Muslim nation must sink into her own deeper self, temporarily focus her vision on herself alone, until all are strong and powerful to form a living family of republics. A true and living unity, according to the nationalist thinkers, is not so easy as to be achieved by a merely symbolical overlordship. It is truly manifested in a multiplicity of free independent units whose racial rivalries are adjusted and harmonized by the unifying bond of a common spiritual aspiration. It seems to me that God is slowly bringing home to us the truth that Islam is neither Nationalism nor Imperialism but a League of Nations which recognizes artificial boundaries and racial distinctions for facility of reference only, and not for restricting the social horizon of its members" .
بحالت موجودہ تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ امم اسلامیہ میں ہر ایک کو اپنی ذات میں ڈوب جانا چاہیے۔ انھیں چاہیے اپنی ساری توجہ اپنے آپ پر مرتکز کر دیں، حتیٰ کہ ان سب میں اتنی طاقت پیدا ہو جائے کہ باہم مل کر اسلامی جمہوریتوں کی ایک برادری کی شکل اختیار کر لیں۔ حزب وطنی کے زعما ٹھیک کہتے ہیں کہ عالم اسلامی کا ایک حقیقی اور مؤثر اتحاد ایسا آسان نہیں کہ محض ایک خلیفہ کے نمائشی تقرر سے وجود میں آ جائے۔ اس کا ظہور ہو گا تو آزاد اور خودمختار وحدتوں کی ایک ایسی کثرت میں جن کی نسلی رقابتوں کو ایک مشترک روحانی نصب العین نے توافق و تطابق سے بدل دیا ہو۔ میں تو کچھ یونہی دیکھ رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ شاید ہم مسلمانوں کو بتدریج سمجھا رہی ہے کہ اسلام نہ تو وطنیت ہے، نہ شہنشاہیت، بلکہ ایک انجمن اقوام جس نے ہمارے خود پیدا کردہ حدود اور نسلی امتیازات کو تسلیم کیا ہے تو محض سہولت تعارف کے لیے۔ اس لیے نہیں کہ اس کے ارکان اپنا اجتماعی مطمح نظر محدود کر لیں۔ 

  مآخذ 
بانگ درا، اقبال اکادمی لاہور، پاکستان، ۲۱۲
ضرب کلیم، اقبال اکادمی لاہور، پاکستان، ۱۴۸
بال جبریل، شیخ غلام علی اینڈ سنزلاہور، پاکستان، ۱۲۳
بانگ درا، اقبال اکادمی لاہور، پاکستان، ۲۷۹
کلیات اقبال، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی، بھارت، ۱۵۸ 


ایسٹ انڈیا کمپنی کی حقیقت کیا تھی؟


برطانوی  شرقُ الہند کمپنی جسے ایسٹ اِنڈیا کمپنی بھی کہا جاتا ہے ، جزائر شرق الہند میں کاروباری مواقع کی تلاش کے لیے تشکیل دیا گیا ایک تجارتی ادارہ تھا تاہم بعد ازاں اس نے برصغیر میں کاروبار پر نظریں مرکوز کر لیں اور یہاں برطانیہ کے قبضے کی راہ ہموار کی۔ 1857ء کی جنگ آزادی تک ہندوستان میں کمپنی کا راج تھا۔ اس کے بعد ہندوستان براہ راست تاج برطانیہ کے زیر نگیں آ گیا۔
کمپنی کو 1600ء میں ملکہ الزبتھ اول کے عہد میں ہندوستان میں تجارت کا پروانہ ملا۔ 1613ء میں اس نے سورٹھ کے مقام پر پہلی کوٹھی قائم کی اس زمانے میں اس کی تجارت زیادہ تر جاوا اور سماٹرا وغیرہ سے تھی۔ جہاں سے گرم مصالحہ برآمد کرکے یورپ میں بھاری داموں بیچا جاتا تھا۔ 1623ء میں جب ولندیزیوں نے انگریزوں کو جزائر شرق الہند سے نکال باہر کیا تو ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنی تمام تر توجہ ہندوستان پر مرکوز کر دی۔ 1662ء میں بمبئی بھی اس کے حلقہ اثر میں آگیا۔ اور کچھ عرصہ بعد شہر ایک اہم تجارتی بندرگاہ بن گیا۔ 1689ء میں کمپنی نے علاقائی تسخیر بھی شروع کردی جس کے باعث بالآخر ہندوستان میں برطانوی طاقت کو سربلندی حاصل ہوئی۔ 1858ء میں یہ کمپنی ختم کردی گئی اور اس کے تمام اختیارات تاج برطانیہ نے اپنے ہاتھ میں لے لیے۔ تاہم 1874ء تک کچھ اختیارات کمپنی کے ہاتھ میں رہے۔
  سال ۲۰۱۰ ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کو ہندوستانی نژاد برطانوی کاروباری شخصیت سنجیو مہتا ہے خرید لیا۔ 

ایسٹ انڈیا کمپنی اگرچہ ایک تجارتی کمپنی تھی مگر ڈھائی لاکھ سپاہیوں کی ذاتی فوج رکھتی تھی۔ جہاں تجارت سے منافع ممکن نہ ہوتا وہاں فوج اسے ممکن بنا دیتی۔

جیسا کہ ۱۷۵۷ء میں جنگ پلاسی کا واقعہ پیش آیا جس میں انگریزوں کو کامیابی حاصل ہوئی، جس کے بعد بنگال کے جوبیس پرگنوں پر انگریزوں کا کنٹرول ہوگیا۔ مغلیہ سلطنت کے زوال کے نتیجے میں 1765ء میں لارڈ کلائیو مغل بادشاہ شاہ عالم ثانی سے مشرقی صوبوں بنگال، بہار اور اڑیسہ کی دیوانی (ٹیکس وصول کرنے اور عوام کو کنٹرول کرنے کے حقوق) چھبیس لاکھ روپے سالانہ کے عوص حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ دیوانی حاصل کرنے کے بعد، انگریزوں نے رفتہ رفتہ اپنے پاؤں پھیلانے شروع کردیئے اور ان مہاراجوں پر بھی تسلط حاصل کرلیا جو مغلیہ سلطنت کے زوال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، اپنے اپنے صوبوں کی خود مختیاری کا اعلان کرچکے تھے۔ ان میں سے چند مہاراجے ہندو تھے جو دوسری مغربی طاقتوں کی مدد سے مغل شہنشاہ کے خلاف بغاوت کرچکے تھے۔ ان کے خلاف، کامیاب فوجی کاروائی کرتے ہوئے انگریزوں کو ملک کے ایک بڑے حصے پر کنٹرول حاصل ہوگیا۔

شیخ دین محمد جو ایسٹ انڈیا کمپنی کا ملازم تھا اپنے سفر نامے میں لکھتا ہے کہ (سن 1780 کے لگ بھگ) جب ہماری افواج آگے بڑھ رہی تھیں تو ہمیں بہت سارے ہندو زائرین نظر آئے جو سیتا کُنڈ جا رہے تھے۔ 15 دنوں میں ہم مونگیر سے بھاگلپور پہنچ گئے۔ شہر سے باہر ہم نے کیمپ لگا لیا۔ یہ شہر صنعتی اعتبار سے اہم تھا اور اسکی ایک فوج بھی تھی تاکہ اپنی تجارت کو تحفظ دے سکے۔ یہاں ہم چار پانچ دن ٹھہرے۔ ہمیں پتہ چلا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا کیپٹن بروک جو سپاہیوں کی پانچ کمپنیوں کا سربراہ تھا وہ بھی قریب ہی ٹھہرا ہوا ہے۔ اسے کبھی کبھار پہاڑی قبائلیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ پہاڑی لوگ بھاگلپور اور راج محل کے درمیانی پہاڑوں پر رہتے تھے اور وہاں سے گزرنے والوں کو تنگ کرتے تھے۔ کیپٹن بروک نے انکی ایک بڑی تعداد کو پکڑ لیا اور انہیں عبرت کا نمونہ بنا دیا۔ کچھ لوگوں کو سر عام بے تحاشا کوڑے مارے گئے، اور کچھ مردُودوں کو پھانسی پر اس طرح لٹکایا گیا کہ پہاڑوں پر سے واضح نظر آئے تاکہ انکے ساتھیوں کے دلوں میں دہشت بیٹھ جائے۔
 یہاں سے ہم آگے بڑھے اور ہم نے دیکھا کہ ان پہاڑیوں کی لاشیں نمایاں جگہوں پر ہر آدھے میل کے فاصلے پر لٹکی ہوئی ہیں۔ ہم سکلی گڑھی اور تلیا گڑھی سے گزر کر راج محل پہنچے جہاں ہم کچھ دن ٹھہرے۔ ہماری فوج بہت بڑی تھی مگر عقب میں تاجروں پر کچھ دوسرے پہاڑیوں نے حملہ کر دیا۔ ہمارے محافظوں نے ان کا پیچھا کیا، کئی کو مار دیا اور تیس چالیس پہاڑی لوگوں کو پکڑ لیا۔ اگلی صبح جب شہر کے لوگ معمول کے مطابق ہاتھی گھوڑوں اور بیلوں کا چارہ لینے اور جلانے کی لکڑی خریدنے پہاڑیوں کے پاس گئے تو پہاڑیوں نے ان پر حملہ کر دیا۔ سات آٹھ شہری مارے گئے۔ پہاڑی اپنے ساتھ تین ہاتھی کئی اونٹ گھوڑے اور بیل بھی لے گئے۔ ہماری بندوق بردار فوجوں نے جوابی کاروائی میں بہت سے پہاڑیوں کو مار دیا جو تیرکمان اور تلواروں سے لڑ رہے تھے اور دو سو پہاڑیوں کو گرفتار کر لیا۔ انکی تلوار کا وزن 15 پاونڈ ہوتا تھا جو اب ہماری فتح کی ٹرافی بن چکی تھیں۔

کرنل گرانٹ کے حکم پر ان پہاڑیوں پر شدید تشدد کیا گیا۔ کچھ کے ناک کان کاٹ دیئے گئے۔ کچھ کو پھانسی دے دی گئی۔ اسکے بعد ہم نے کلکتہ کی طرف اپنا مارچ جاری رکھا۔

جون 1757ء میں پلاسی کی جنگ میں نواب سراج الدولہ کو شکست دینے کے بعد کمپنی کے اعلیٰ ترین افسران نے بنگال میں یکے بعد دیگرے کئی نواب مقرر کیئے اور ہر ایک سے رشوت لے کر 26 لاکھ پاونڈ بٹور لیئے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوجیں اکثر مقامی حکمرانوں کو اجرت کے عوض فوجی خدمات فراہم کرتی تھیں۔ لیکن ان فوجی اخراجات سے مقامی حکمران جلد ہی کنگال ہو جاتے تھے اور اپنی حکمرانی کھو بیٹھتے تھے۔ اس طرح ایسٹ انڈیا کمپنی کی سلطنت وسیع ہوتی چلی گئی۔
بنگال کے قحط نے کمپنی کے افسران کو امیر بننے کا بھر پور موقع فراہم کیا۔ چاول جو ایک روپے میں 120 سیر ملتا تھا اب ایک روپے میں صرف تین سیر ملنے لگا۔ ایک جونیئر افسر نے اس طرح 60,000 پاونڈ منافع کمایا۔ 

 Cornelius Wallard  
کے مطابق ہندوستان میں پچھلے دو ہزار سالوں میں 17 دفعہ قحط پڑا تھا۔ مگر ایسٹ انڈیا کمپنی کے 120 سالہ دور میں 34 دفعہ قحط پڑا۔ مغلوں کے دور حکومت میں قحط کے زمانے میں لگان (ٹیکس) کم کر دیا جاتا تھا مگر ایسٹ انڈیا کمپنی نے قحط کے زمانے میں لگان بڑھا دیا۔
Warren Hastings
کے مطابق لگ بھگ ایک کروڑ افراد بھوک سے مر گئے جو کل آبادی کا ایک تہائی تھے۔ لوگ روٹی کی خاطر اپنے بچے بیچنے لگے تھے۔

 برطانیہ کے ہاؤس آف کامنز نے 1813 میں تھامس منروئے  جسے 1820 میں مدراس کا گورنر بنایا گیا   سے جاننا چاہا کہ آخر صنعتی انقلاب کے بعد انگلینڈ کے بنے ہوئے کپڑے ہندوستان میں کیوں نہیں بک رہے تو اس نے جواب دیا کہ ہندوستانی کپڑے کہیں زیادہ بہتر کوالٹی کے ہوتے ہیں۔ اس نے مزید کہا کہ میں ایک ہندوستانی شال سات سال سے استعمال کر رہا ہوں مگر وہ آج بھی نئی جیسی ہے۔ اگر کوئی مجھے یورپ کی بنی شال تحفے میں بھی دے تو میں اسے استعمال نہیں کروں گا۔

انگلینڈ میں بنے کپڑے کو ہندوستان میں مقبول بنانے کے لیئے ہندوستان کی کپڑے کی صدیوں پرانی صنعت کو بڑی بے رحمی سے تباہ کیا گیا۔ اگر کوئی جولاہا کپڑے بیچتا ہوا نظر آ جاتا تو اس کے ہاتھ کا انگوٹھا کاٹ دیا جاتا تھا تاکہ وہ زندگی بھر کپڑا نہ بن سکے۔ کسانوں کی آمدنی پر ٹیکس 66 فیصد کر دیا گیا جو مغل دور میں 40 فیصد تھا۔ روز مرہ استعمال کی عام اشیاء پر بھی ٹیکس عائید کیے گئے جن میں نمک بھی شامل تھا۔ اس سے نمک کی کھپت آدھی ہو گئی۔ نمک کم استعمال کرنے کی وجہ سے غریب لوگوں کی صحت سخت متاثر ہوئی اور ہیضے اور لُو لگنے کی وجہ سے ہونے والی اموات میں بڑا اضافہ ہوا۔
  ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک ڈائریکٹر ہنری جارج ٹکر نے 1823 میں لکھا کہ اس طرح ہندوستان کو ایک صنعتی ملک کی حیثیت سے گرا کر ایک زراعتی ملک بنا دیا گیا ہے تاکہ انگلستان کا مال ہندوستان میں بیچا جا سکے

۱۸۱۴ء سے ۱۸۳۵ء  تک انگلینڈ کے بنے کپڑے کی ہندوستان میں فروخت میں 51 گنا اضافہ ہوا جبکہ ہندوستان سے انگلینڈ آنے والی درآمدات صرف چوتھائی رہ گئیں۔ اس دوران ڈھاکہ جو کپڑا سازی کا بڑا مرکز تھا اس کی آبادی دیڑھ لاکھ سے گر کر صرف بیس ہزار رہ گئی۔ گورنر جنرل ویلیم بنٹنک نے 1834 میں اپنی رپورٹ میں لکھا کہ معاشیات کی تاریخ میں ایسی بدترین صورتحال کی مثال نہیں ملتی۔ ہندوستانی جولاہوں کی ہڈیوں سے ہندوستان کی زمین سفید ہو گئی ہے۔ 
۱۷۷۱ء میں کمپنی کے پاس صرف 187 یورپی سول افسران تھے جو بنگال میں تعینات تھے اور تین کروڑ لوگوں پر حکومت کرتے تھے۔ فوج میں بھی عموماً آدھے سے زیادہ لوگ ہندوستانی ہوا کرتے تھے۔

کیا موجودہ دور میں بھی ایسٹ انڈیا کمپنی دنیا میں اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے سرگرم ہے؟ اِس بارے آپ کا کیا خیال ہے  

اورنگزیب عالمگیر ایک مجدّد حکمراں


دورِ حکومت: ( 1658ء تا 1707ء) مغلیہ خاندان کا شہنشاہ ، نام :محی الدین ، اورنگزیب لقب، اس کے والد شاہجہان نے اسے عالمگیر کا خطاب دیا۔ 3 نومبر ،1618ء کو مالوہ کی سرحد پر پیدا ہوا۔ اس کی والدہ ارجمند بانو بیگم تھیں۔ جو ممتاز محل کے نام سے مشہور تھیں۔ اورنگ زیب کی عمر دو سال کی تھی کہ شاہجہان نے اپنے باپ جہانگیر کے خلاف بغاوت کردی ۔ اور بیوی بچوں کو لے کر چار سال تک بنگال اور تلنگا میں پھرتا رہا۔ آخر جہانگیر کے کہنے پر اپنے بیٹوں داراشکوہ اور اورنگ زیب کو دربار میں بھیج کر معافی مانگ لی۔ جہانگیر نےدونوں  بچوں کو ملکہ نورجہاں کی نگرانی میں بھیج دیا
اورنگزیب کو سید محمد، میر ہاشم اور مُلاّ صالح جیسے علام کی شاگردی کا موقع ملا۔ مغل بادشاہوں میں اورنگزیب عالم گیر پہلا بادشاہ ہے جس نے قرآن شریف حفظ کیا اور فارسی مضمون نویسی میں نام پیدا کیا۔ اس کے علاوہ گھڑ سواری ، تیراندازی ، اور فنون سپہ گری میں بھی کمال حاصل کیا۔ سترہ برس کی عمر میں 1636ء دکن کا صوبیدار مقرر ہوا۔ اس دوران میں اس نے کئی بغاوتوں کو فرو کیا۔ اور چند نئے علاقے فتح کیے۔ بلخ کے ازبکوں کی سرکوبی جس جوانمردی سے کی اس مثال تاریخ عالم میں مشکل سے ملے گی۔ 

شاہجہان کی بیماری کے دوران میں داراشکوہ نے تمام انتظام حکومت اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ دارا کی اس جلدبازی سے شاہجہان کی موت کی افواہیں پھیلنے لگیں اور ملک میں ابتری پھیل گئی ۔ شاہ شجاع نے بنگال میں اپنی بادشاہت قائم کرلی اور آگرہ پر فوج کشی کے ارادے سے روانہ ہوا۔ بنارس کے قریب دارا اور شجاع کی فوجوں میں‌جنگ ہوئی جس میں دارا کو فتح اور شجاع کو شکست ہوئی۔ اورنگزیب نے مراد سے مل کر داراکے مقابلے کی ٹھانی۔ اجین کے قریب دنوں فوجوں کا آمنا سامنا ہوا۔ اورنگزیب عالمگیر کو فتح ہوئی۔ ساموگڑھ کے قریب پھر لڑائی ہوئی جس میں اورنگزیب کو دوبارہ کامیابی ہوئی۔

اورنگزیب ابوالمظفر محی الدین کے لقب سے تخت پر بیٹھا اس نے ہندوؤں اور مسلمانوں کی فضول رسمیں ختم کیں اور فحاشی کا انسداد کیا اور خوبصورت مقبروں کی تعمیر و آرائش ممنوع قرار دی۔ قوال ، نجومی ، شاعر موقوف کر دیتے گئے۔ شراب ، افیون اور بھنگ بند کردی ۔ درشن جھروکا کی رسم ختم کی اور بادشاہ کو سلام کرنے کا اسلامی طریقہ رائج کیا۔ سجدہ کرنا اور ہاتھ اٹھانا موقوف ہوا۔ سکوں پر کلمہ لکھنے کا دستور بھی ختم ہوا۔ کھانے کی جنسوں پر ہرقسم کے محصول ہٹا دیے۔ 1665ء میں آسام ، کوچ بہار اور چٹاگانگ فتح کیے اور پرتگیزی اور فرنگی بحری قزاقوں کا خاتمہ کیا۔ 1666ء میں سرحد کے شاعر خوشحال خان خٹک کی شورش اور متھرا اور علیگڑھ کے نواح میں جاٹوں کی غارت گری ختم کی۔ نیز ست نامیوں کی بغاوت فرو کی ۔ سکھوں کے دسویں اور آخری گرو گوبند سنگھ نے انند پور کے آس پاس غارت گری شروع کی اور مغل فوج سے شکست کھا کر فیروز پور کے قریب غیر آباد مقام پر جا بیٹھے۔ جہاں بعد میں مکتسیر آباد ہوا۔ عالمگیر نے انھیں اپنے پاس دکن بلایا یہ ابھی راستے میں تھے کہ خود عالمگیر فوت ہوگیا۔

عالمگیر نے 1666ء میں راجا جے سنگھ اور دلیر خان کو شیوا جی کے خلاف بھیجا۔ انھوں نے بہت سے قلعے فتح کر لے۔ شیواجی اور اس کا بیٹا آگرے میں نظربند ہوئے۔ شیواجی فرار ہو کر پھر مہاراشٹر پہنچ گیا۔ اور دوبارہ قتل و غارت گری شروع کی۔ 1680ء میں شیواجی مرگیا تو اس کا بیٹا سنبھا جی جانشین ہوا یہ بھی قتل و غارت گری میں مصروف ہوا۔ عالمگیر خود دکن پہنچا۔ سنبھا جی گرفتار ہو کر مارا گیا ۔ اس کا بیٹا ساہو دہلی میں نظربند ہوا۔ دکن کا مطالعہ کرکے عالمگیر اس نتیجے پرپہنچا کہ بیجاپور اور گولکنڈا کی ریاستوں سے مرہٹوں کو مدد ملتی ہے اس نے 1686ء میں بیجاپور اور 1687ء میں گولگنڈا کی ریاستیں ختم کر دیں۔ اس کے بعد مرہٹوں کے تعاقب میں‌ ہندوستان کے انتہائی جنوبی حصے بھی فتح کر لیے۔ مغلیہ سلطنت پورے ہندوستان میں پھیل گئی۔

عالمگیر احمد نگر میں بیمار ہوا اور 3 مارچ، 1707ء کو نوے برس کی عمر میں فوت ہوا۔ وصیّت کے مطابق اسے خلد آباد میں فن کیا گیا۔ خلدآباد سے قریب ایک مقام ہے جس کا نام اورنگ آباد ہے، اورنگ آباد میں اورنگ زیب کی مختلف یادگاریں آج بھی محفوظ ہیں۔ بڑا متقی ، پرہیز گار ،مدبر اور اعلیٰ درجے کا منتظم تھا۔ خزانے سے ذاتی خرچ کے لیے ایک پائی بھی نہ لی۔ قرآن مجید لکھ کر ٹوپیاں سی کر گزارا کرتا تھا۔ سلجھا ہوا ادیب تھا۔ اُس کے خطوط رقعات عالمگیر کے نام سے مرتب ہوئے۔ اس کے حکم پر نظام سلطنت چلانے کیلیے ایک مجموعہ فتاویٰ تصنیف کیا گیا جسے تاریخ میں فتاویٰ عالمگیری کہا گیا۔ فتاویٰ عالمگیری فقہ اسلامی میں ایک ممتاز مقام رکھتی ہے۔ بعض علما نے سلطان اورنگزیب کو اپنے دور کا مجدد بھی قرار دیا۔ 
 پانچ بیٹے اورپانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ مشہور شاعرہ  زیب النساء مخفی ان کی دختر تھیں۔ بیٹا بہادر شاہ اول باپ کی سلطنت کا وارث ہوا۔
اورنگزیب عالمگیر پر لکھی گئی اردو کتاب ڈاؤن لوڈ کرنے کےلیے یہاں کلک کریں۔ 

مرزا اسد اللہ خان غالب اُردو زبان کے بادشاہِ عظیم

ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور
مرزا غالب(1797-1869)اردو زبان کے سب سے بڑے شاعر سمجھے جاتے ہیں۔ ان کی عظمت کا راز صرف ان کی شاعری کے حسن اور بیان کی خوبی ہی میں نہیں ہے۔ ان کاا صل کمال یہ ہے کہ وہ ز ندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جاکر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے بیان کردیتے تھے۔غالب جس پر آشوب دور میں پیدا ہوئے اس میں انہوں نے مسلمانوں کی ایک عظیم سلطنت کو برباد ہوتے ہوئے اور باہر سے آئی ہوئی انگریز قوم کو ملک کے اقتدار پر چھاتے ہوئے دیکھا۔غالباً ً یہی وہ پس منظر ہے جس نے ان کی نظر میں گہرائی اور فکر میں وسعت پیدا کی۔
مرزا غالب کا نام اسد اللہ بیگ خاں تھا۔ باپ کا نام عبداللہ بیگ تھا ۔ آپ دسمبر 1797ء میں آگرہ میں پیدا ہوئے۔ غالب بچپن ہی میں یتیم ہو گئے تھے ان کی پرورش ان کے چچا مرزا نصر اللہ بیگ نے کی لیکن آٹھ سال کی عمر میں ان کے چچا بھی فوت ہو گئے۔ نواب احمد بخش خاں نے مرزا کے خاندان کا انگریزوں سے وظیفہ مقرر کرا دیا۔ 1810ءمیں تیرہ سال کی عمر میں ان کی شادی نواب احمد بخش کے چھوٹے بھائی مرزا الہی بخش خاں معروف کی بیٹی امراءبیگم سے ہو گئی شادی کے بعد انہوں نے اپنے آبائی وطن کو خیر باد کہہ کر دہلی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔
شادی کے بعد مرزا کے اخراجات بڑھ گئے اور مقروض ہو گئے ۔ اس دوران میں انہیں مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ور قرض کا بوجھ مزید بڑھنے لگا۔ آخر مالی پریشانیوں سے مجبور ہو کر غالب نے قلعہ کی ملازمت اختیار کر لی اور 1850ءمیں بہادر شاہ ظفر نے مرزا غالب کو نجم الدولہ دبیر الملک نظام جنگ کا خطاب عطا فرمایا ، اور خاندان تیموری کی تاریخ لکھنے پر مامور کر دیا اور 50روپے ماہور مرزا کا وظیفہ مقرر ہوا۔
غدر کے بعد مرزا کی سرکاری پنشن بھی بند ہو گئی ۔ چنانچہ انقلاب 1857ءکے بعد مرزا نے نواب یوسف علی خاں والی رامپور کو امداد کے لیے لکھا انہوں نے سو روپے ماہوار وظیفہ مقرر کر دیا جو مرزا کو تادم حیات ملتا رہا۔ کثرت شراب نوشی کی بدولت ان کی صحت بالکل تباہ ہو گئی مرنے سے پہلے بے ہوشی طاری رہی اور اسی حالت میں 15 فروری 1869ء کو انتقال فرمایا


  غالب کی شاعری
غالب کے بارے میں عبادت بریلوی لکھتے ہیں، ”غالب زبان اور لہجے کے چابک دست فنکار ہیں۔ اردو روزمرہ اور محاورے کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ اس کی سادگی دل میں اتر جاتی ہے۔“
عبدالرحمن بجنوری لکھتے ہیں کہ، ”ہندوستان کی الہامی کتابیں دو ہیں ”وید مقدس“ اور ”دیوان غالب“ ۔“
اردو شاعری میں مرزا غالب کی حیثیت ایک ررخشاں ستارے کی سی ہے۔ انہوں نے اردو شاعری میں ایک نئی روح پھونک دی ۔ اسے نئے نئے موضوعات بخشے اور اس میں ایک انقلابی لہر دوڑا دی۔ ان کی شاعری میں فلسفیانہ خیالات جا بجا ملتے ہیں۔ غالب ایک فلسفی ذہن کے مالک تھے۔ انہوں نے زندگی کو اپنے طور پر سمجھنے کی بھر پور کوشش کی اور ان کے تخیل کی بلندی اور شوخی فکرکا راز اس میں ہے کہ وہ انسانی زندگی کے نشیب و فراز کوشدت سے محسوس کرتے ہیں۔
غالب انسانی زندگی کے مختلف پہلوئوں کا گہرا شعور رکھتے ہیں ۔ اس کے بنیادی معاملات و مسائل پر غور و فکر کرتے ہیں۔ اس کی ان گنت گتھیوں کو سلجھا دیتے ہیں۔ انسان کو اس کی عظمت کا احساس دلاتے ہیں اس کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونا سکھاتے ہیں ۔ اور نظام کائنات میں اس کونئے آسمانوں پر اڑاتے ہیں۔ غالب کی شاعری اس اعتبار سے بہت بلند ہے اور اس میں شبہ نہیں کہ ان کی شاعر ی کے انہیں عناصر نے اُن کو عظمت سے ہمکنار کیا ہے۔ لیکن جس طرح ان کی شاعری میں ان سب کا اظہار و ابلاغ ہوا ہے۔ وہ بھی اس کو عظیم بنانے میں برابر کے شریک ہیں۔
غالب کی شاعری کا اثرحواس پر شدت سے ہوتا ہے وہ ان میں غیر شعوری طور پرایک ارتعاش کی سی کیفیت پیدا کرتی ہے اور اسی ارتعاش کی وجہ سے اس کے پڑھنے اور سننے والے کے ذہن پر اس قسم کی تصویریں ابھرتی ہیں ۔ ان کے موضوع میں جووسعتیں اور گہرائیاں ہیں اس کا عکس ان کے اظہار و ابلاغ میں بھی نظرآتا ہے۔ ان گنت عناصر کے امتزاج سے اس کی تشکیل ہوتی ہے۔

طنز و مزاح شوخی وظرافت
شوخی و ظرافت غالب کی شخصیت کا خاصہ ہے۔عملی زندگی میں وہ خوش باش انسان تھے۔ اسی لیے حالی انھیں حیوان ِ ظریف کہتے ہیں۔ انتہائی کٹھن حالات میں بھی وہ زندہ دلی کا دامن نہیں چھوڑتے ۔انہیں زمانے نے نجانے کتنے دکھ دیئے لیکن غالب پھر بھی ہنسے جاتے ہیں۔ان کی ظرافت میں محض شوخی ہی کام نہیں کر رہی ،جس طرح غالب کی شخصیت پہلو دار شخصیت ہے اسی طرح غالب کی ظرافت کی بھی متعدد سطحیںہیں۔ ان کی شاعری میں طنز و طرافت کے اعلی نمونے ملتے ہیں۔ غالب کے کچھ طنزیہ اشعار ملاحظہ ہوں:
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
کیا وہ نمرود کی خدائی تھی
بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا
چاہتے ہیں خوب رویوں کو اسد
آپ کی صورت تو دیکھا چاہیے
جانتا ہوں ثواب طاعت وزہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی

زندہ دلی اور خوش طبعی
غالب کی شاعر ی میں طنز یہ اشعار کے ساتھ ساتھ شوخی اور خوشدلی کا پہلو بھی بڑا نمایاں ہے۔ چنانچہ ان کے ہاں ایسے اشعار بھی بہت ہیں جنہیں خالص مزاح کا نمونہ کہا جاسکتا ہے۔ اصل میں غالب زندگی کی چھوٹی چھوٹی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کی بھر پور صلاحیت رکھتے تھے۔ اگرچہ وہ زندگی کی تلخیوں سے آگاہہیں لیکن انہیں زندگی سے والہانہ لگائو بھی ہے۔ غالب ایک فلسفی شاعر تھے۔ انہوں نے زندگی کو سمجھنے کی کوشش کی اور پھر اپنے انکشافات کو ہلکے پھلکے انداز میں پیش کر دیا۔ غالب کے کچھ مزاح سے پھرپور اشعار ملاحظہ ہوں 
در پہ رہنے کو کہا اور کہہ کے کیسا پھر گیا
جتنے عرصے میں مرا لپٹا ہوا بستر کھلا
کہاں مے خانے کا دروازہ غالب اور کہاں واعظ
پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے  
غالب کا تصور عشق
غالب کے ہاں حسن و عشق کے تصورات اگرچہ وہی ہیں جو صدیوں سے اردو اور فارسی شاعری میں اظہار پاتے رہے ہیں ۔ تاہم غالب کی فطری جدت پسندی نے ان کو صرف انہی موضوعات تک محدود نہیں رکھا بلکہ اپنے ذاتی تجربات و محسوسات کی روشنی میں حسن و عشق کے بارے میں انہوں نے اپنی انفرادیت قائم کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔
غالب عشق کی اہمیت کے اس قدر قائل ہیں کہ وہ اس کے بغیر انجمن ہستی کو بے رونق سمجھتے ہیں مثلاً وہ کہتے ہیں کہ
رونق ہستی ہے عشق خانہ ویراں ساز سے
انجمن بے شمع ہے گر برق خرمن میں نہیں
غالب کو اس بات کا بڑا قلق ہے کہ وہ عشق کی بزم آرائی تو عمر بھر کرتے رہے لیکن عشق کی راہ میں حقیقی قربانی ایک بھی نہ دے سکے اور وہ غالباً اس لئے کہ ان کے پاس عشق کے حضور میں پیش کرنے کے لئے کچھ بھی نہ تھا۔فرماتے ہیں کہ
ہوا ہوں عشق کی غارت گری سے شرمندہ
سوائے حسرت تعمیرگھر میں خاک نہیں
غالب عشق کے پرانے افلاطونی تصور کو بھی تسلیم نہیں کرتے ۔ بلکہ اس کے برخلاف ان کا عشق زمینی اوصاف کا حامل ہے۔
خواہش کو احمقوں نے پرستش دیا قرار
کیا پوجتا ہوں اس بت بیداد گر کو میں
غالب کے ہاں عشق کی روایتی عاجزی اور مسکینی کے برخلاف ایک جارحانہ انداز پایا جاتا ہے ۔ ایک خاص مقام اور مخصوص شان ہے۔ وہ سوتے ہوئے محبوب کے پاؤں کا بوسہ محض اس لیے نہیں لیتے کہ وہ بدگماں نہ ہو جائے۔ وہ ناراض محبوب کو مناتے بھی نہیں کہ یوں ان کی سبکسری کا پہلو نکل سکتا ہے۔ وہ بزم میں نہیں بلاتا تو یہ راہ میں نہیں ملتے اور جب وہ عجز و نیاز سے رہ پر نہیں آتے تو اس کے دامن کو حریفانہ کھینچنے کی جرات رندانہ بھی کر لیتے ہیں۔
لے تو لوں سوتے میں اُس کے پاؤں کا بوسہ مگر
ایسی باتوں سے وہ کافر بدگماں ہو جائے گا
عجز و نیاز سے تو وہ آیا نہ راہ پر
دامن کو اس کے آج حریفانہ کھنچئے


ڈاکٹر فرمان فتح پور ی لکھتے ہیں کہ غالب کے اقوال و بیانات کے سلسلے میں خصوصاً محتاط رہنے کی ضرورت ہے اس لئے کہ وہ بنوٹ باز شاعر ہیں قدم قدم پر پنتیر ے بدلتے ہیں اور اپنی خوداری اور انانیت کے باوصف مصلحت کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ۔
عبادت بریلوی لکھتے ہیں کہ
 غالب ایک بڑی رنگین ایک بڑی ہی پر کار اور پہلو دار شخصیت رکھتے تھے اور اس رنگینی ، پر کاری اور پہلو داری کی جھلک ان کی ایک ایک بات میں نظرآتی ہے۔
بقول رشید احمد صدیقی، مجھ سے اگر پوچھا جائے کہ ہندوستان کو مغلیہ سلطنت نے کیا دیا ۔ تو میں بے تکلف یہ تین نا م لوں گا غالب ، اردو اور تاج محل۔
بقول ڈاکٹر محمد حسن، دیوان ِ غالب کو ہم نئی نسل کی انجیل قرار دے سکتے ہیں۔
بقول ڈاکٹر عبادت بریلوی، اردو میں پہلی بھرپور اور رنگارنگ شخصیت غالب کی ہے۔ ایک اور جگہ لکھتے ہیں، غالب کی بڑائی اس میں ہے کہ انہوں نے متنوع موضوعات کو غزل کے سانچے میں ڈھالاہے۔ 
مآخذ : وِکی پیڈیا   

ہونے کو ہے ڈیٹا اسٹوریج کا قحط




ہارڈڈسک بنانے والی معروف کمپنی سی گیٹ کے نائب صدر مارک وِٹبے (Mark Whitby) نے ٹیک ریڈار کو دیے اپنے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا ہے کہ اگلے دو سال میں دنیا کو ڈیٹا اسٹوریج کے قحط کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا،’’ہم ایک ایسی دنیا میں داخل ہونے جارہے ہیں جہاں ہر ڈیوائس ایک دوسرے سے جڑی ہوگی اور ان سے پیدا ہونے والے ضخیم ڈیٹا سے ہمارے مختلف مسائل حل ہونے کی امید لگائی جارہی ہے۔ لیکن 2016ء  تک دنیا بھر میں موجود ڈیوائسز اور بڑے بڑے ڈیٹا سینٹرز میں لگی ہارڈڈرائیوز کی ڈیٹا محفوظ کرنے کل گنجائش سے زیادہ ڈیٹا پیدا ہونے لگے گا۔ سال 2013ء  میں 3.5 زیٹا بائٹس (35 کے بعد 20 صفر) کا ڈیجیٹل ڈیٹا پیدا ہوا۔
2020ء  میں یہ مقدار کم از کم 44 (چوالیس) زیٹا بائٹس فی سال تک پہنچ جائے گی۔‘‘ لفظ زیٹا بائٹ (zettabyte ) بہت سے قارئین کے لیے نیا ہوسکتا ہے لیکن اگلے چند سالوں کے دوران اس اصطلاح سے واسطہ پڑنا شروع ہوجائے گا۔
ایک زیٹا بائٹ ڈیٹا محفوظ کرنے کے لیے کتنی زیادہ گنجائش ہے، اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 32 گیگا بائٹس کی اسٹوریج رکھنے والے تقریباً 34 ارب، 35 کروڑ، 97لاکھ اور 34ہزار ایپل آئی فونز کی مجموعی گنجائش ایک زیٹا بائٹ ہوگی۔

  

مارک وِٹبے نے مزید کہا کہ 2020ء  میں دنیا کے پاس ڈیٹا محفوظ کرنے کی جو گنجائش ہوگی، پیدا ہونے والا ڈیجیٹل ڈیٹا اس سے چھے زیٹا بائٹس زیادہ ہوگا۔ یعنی طلب اور رسد کا یہ فرق 2013ء  میں پیدا ہونے والے کْل ڈیٹا سے بھی د گنا زیادہ ہوجائے گا۔ اس سوال کے جواب میں کہ اگر دنیا میں اسٹوریج کی قحط پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔
ہارڈڈرائیو بنانے والی کمپنیاں ان کی پیداوار میں کیوں اضافہ نہیں کرتیں، مارک وِٹبے نے کہا ’’بدقسمتی سے طلب اور رسد کے اس فرق کا مسئلہ حل کرنا آسان کام نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈیٹا کو محفوظ کرنے کے لیے اسٹوریج ڈیوائسز بنانا ڈیٹا پیدا کرنے سے کہیں زیادہ مشکل کام ہے۔ جس طلب کا سامنا ہمیں مستقبل میں ہونے جارہا ہے، اسے پورا کرنے کے لیے ہمیں ایسی فیکٹریاں درکار ہیں جنہیں بنانے میں کھربوں ڈالر لگ جائیں گے۔ اس لیے یہ حقیقت پر مبنی حل نہیں ہے۔
طلب اور رسد کے فرق کو ختم کرنے میں ناکامی کی ایک وجہ وہ ٹیکنالوجی بھی ہے جو ہم اس وقت استعمال کررہے ہیں۔ انتہائی چھوٹے رقبے پر بڑی مقدار میں ڈیٹا محفوظ کرنے کی ہماری صلاحیت بھی اپنی حد کو پہنچ رہی ہے اور اب ہمیں نئی ٹیکنالوجی درکار ہوگی۔‘‘ 

اب موبائل کنٹرول کریں اپنے ناخن سے



کمپیوٹر کو کنٹرول کرنے کیلئے ایک امریکی طالبہ نے ایک ایسا آلہ ایجاد کر دیا ہے جو نہ صرف انتہائی چھوٹا ہے بلکہ اس کا استعمال بھی حیرت انگیز حد تک آسان ہے۔

ایم آئی ٹی یونیورسٹی کی طالبہ سنڈی سنلیو کاﺅ نے ایک ایسا ٹریک پیڈ ایجاد کیا ہے کہ جو انگوٹھے کے ناخن کے برابر ہے۔ اسے مصنوعی ناخن کی طرح انگوٹھے پر لگایا جاتا ہے اور اس پر انگلی پھرنے سے پوائنٹر کمپیوٹر کی سکرین پر حرکت کرتا ہے۔ اسے بلیو ٹوتھ کے ذریعے لیپ ٹاپ، ٹیبلٹ کمپیوٹر اور سمارٹ فون سے بھی منسلک کیا جا سکتا ہے۔ ناخن کے برابر ٹریک پیڈ میں مکمل سرکٹ، پروسیسر اور ننھی بیٹری بھی ہے اور یہ وائرلیس طریقے سے کام کرتا ہے۔ 
اسے پوائنٹر کو حرکت دینے کے علاوہ دیگر کئی فنکشن سرانجام دینے کیلئے پروگرام بھی کیا جا سکتا ہے، مثلاً اس کے ذریعے ڈرائینگ کی جا سکتی ہے، والیم کو کنٹرول کیاجا سکتا ہے اور مختلف فیچرز کو آن آف کیاجا سکتا ہے۔

اس شرط پہ کھیلوں گی پِیا پیار کی بازی


اس شرط پہ کھیلوں گی پِیا پیار کی بازی
جیتوں تو تُجھے پاؤں ہاروں تو پِیا تیری

ہر لحظ خیال رکھوں گی صرف اتنا
بیٹھ جاؤں تو بھی تیری اور اُٹھ جاؤں تو بھی تیری

کچھ کر لوں حال اپنا ایسا ہمسفر
آنکھ لگے تو بھی تیری آنکھ کھلے تو بھی تیری

تیری ہر آہٹ پر پالوں گی تعبیر ایسی
ہنس جاؤں تو بھی تیری رُوٹھ جاؤں تو بھی تیری

میں ساتھ دوں تیرا کچھ ایسے جانِ جہاں
زِندہ رہوں توبھی تیری مر جاؤں تو بھی تیری

کبھی یا د آئیں تو پوچھنا ذرا اپنی خلوتِ شام سے


کبھی یا د آئیں تو پوچھنا ذرا اپنی خلوتِ شام سے 
کسے عشق تھا تیری ذات سے، کسے پیارتھا تیرے نام سے

ذرا یاد کر کہ وہ کون تھا، جو کبھی تجھے بھی عزیز تھا
وہ جو جی اٹھا تیرے نام سے، وہ جو مرمِٹا تیرے نام سے

ہمیں بے رُخی کا نہیں گِلہ، کہ یہی وفاؤں کا ہے صِلہ
مگر ایسا جرم تھا کون سا، گئے ہم دعا و سلام سے

نہ کبھی وصل کی چاہ کی، نہ کبھی فراق میں آہ کی
کہ میرا طریقہ بندگی ہے، جدا طریقہ عام سے
 
Copyright © 2015 Urdu Award
Powered by Z.A.Anees